Imtiyaz Saghar

امتیاز ساغر

امتیاز ساغر کی غزل

    ٹوٹ کر اور بھی گداز ہوا

    ٹوٹ کر اور بھی گداز ہوا دل ہمارا نوائے ساز ہوا آنکھ جھپکی کہ آئنہ ٹوٹا ہجر کا سلسلہ دراز ہوا تیرے پردے میں اپنی خواہش کی میں کہاں خود سے بے نیاز ہوا کثرت ورد اسم اعظم سے منکشف دل پہ حرف راز ہوا دھوپ اوڑھے رہا بدن برسوں تب کہیں جا کے امتیاز ہوا

    مزید پڑھیے

    وہ سنگلاخ زمینوں میں شعر کہتا تھا

    وہ سنگلاخ زمینوں میں شعر کہتا تھا عجیب شخص تھا کھلتا گلاب جیسا تھا سلگتے جسم پہ میرے گلوں کا سایہ تھا ترے وجود کا وہ لمس کتنا مہکا تھا جو آشنا تھے بہت اجنبی سے لگتے تھے وہ اجنبی تھا مگر آشنا سا لگتا تھا پرند شام ڈھلے گھونسلوں کی سمت چلے چراغ جلتے ہی اس کو بھی لوٹ آنا تھا اسی ...

    مزید پڑھیے

    صبح قیامت جاں سے گزرنے لگتی ہے

    صبح قیامت جاں سے گزرنے لگتی ہے تیز چلوں تو سانس بکھرنے لگتی ہے شہر جاں میں عشق کی شمعیں بجھتے ہی قطرہ قطرہ رات اترنے لگتی ہے کبھی کبھی یہ زخم کھلاتی پروائی رنگ مری تصویر میں بھرنے لگتی ہے رات کی آنکھیں بجھتے بجھتے محفل میں پروانوں کی خاک بکھرنے لگتی ہے اذن حضوری اس در سے مل ...

    مزید پڑھیے

    پہلے صبح کا روشن تارا صرف ہمارے دھیان میں تھا

    پہلے صبح کا روشن تارا صرف ہمارے دھیان میں تھا لیکن عزم کی لو بھڑکی تو سورج بھی امکان میں تھا شہر جاں سے دشت عدم تک کرب کا موسم ساتھ رہا جانے کس کی کھوج میں تھے ہم کس کا چہرہ دھیان میں تھا شہر سود و زیاں میں شور تھا گھٹتے بڑھتے نرخوں کا لیکن اس شفاف گلی کا ہر لمحہ نروان میں ...

    مزید پڑھیے

    تیرہ بختی جو مقدر ہو جائے

    تیرہ بختی جو مقدر ہو جائے پھول سا جسم بھی پتھر ہو جائے اشک رک جائے تو آنکھیں بے نور اور ڈھل جائے تو گوہر ہو جائے روح صحرا کی طرح پیاسی ہے چشم بے آب سمندر ہو جائے روزن شہر پہ آنکھیں ہیں دھری اے خدا وا کوئی منظر ہو جائے عشق دنیا بھی عجب دنیا ہے ہجر جو کاٹے پیمبر ہو جائے دولت چشم ...

    مزید پڑھیے

    ہیں گھر کی محافظ مری دہکی ہوئی آنکھیں

    ہیں گھر کی محافظ مری دہکی ہوئی آنکھیں میں طاق میں رکھ آیا ہوں جلتی ہوئی آنکھیں اک پل بھی کسی موڑ پہ رکنے نہیں دیتیں کانٹوں کی طرح جسم میں چبھتی ہوئی آنکھیں رستے میں قدم پھونک کے رکھنا میرے پیارو ہیں چاروں طرف شہر میں بکھری ہوئی آنکھیں یوں اس کے بچھڑ جانے پہ آنسو نہ بہاؤ منظر ...

    مزید پڑھیے

    ہے جو طوفان بے نواؤں میں

    ہے جو طوفان بے نواؤں میں پھیلنے کو ہے اب ہواؤں میں راکھ دل کی کریدنے والو آگ لگ جائے گی فضاؤں میں مجھ کو چونکائے کیا کوئی نغمہ گم ہوں میں اپنی ہی صداؤں میں بس یہی ہے فسانۂ ہستی سانس لی گھر گئے بلاؤں میں اور معیار حق بلند ہوا کچھ اضافہ ہوا سزاؤں میں آنکھ رکھتی ہے کیا سماعت ...

    مزید پڑھیے

    کھلی جو آنکھ تو صدیوں کا فاصلہ نکلا

    کھلی جو آنکھ تو صدیوں کا فاصلہ نکلا مرے وجود میں اک شخص دوسرا نکلا عجب نہ تھا مجھے صحرا کی دھوپ کھا جاتی قدم بڑھائے جنوں نے تو راستہ نکلا خبر نہیں کہ وہ آشوب وقت کیسا تھا ہر ایک آنکھ میں برسوں کا رتجگا نکلا فراق صبح میں وہ آنکھ جل رہی تھی مگر بجھا ہوا در ہجراں پہ اک دیا ...

    مزید پڑھیے

    رموز چشم کرم سے جو با کمال ہوئے

    رموز چشم کرم سے جو با کمال ہوئے نصاب عشق میں وہ لوگ لا زوال ہوئے حریم ناز تری بزم سے نکالے ہوئے سفیر نور ہوئے آئنہ مثال ہوئے کبھی گزر تو سہی تو بھی اس خرابے سے کبھی تو دیکھ کہ ہم کتنے پائمال ہوئے ہوائے کوئے تمنا پکارتی ہے جنہیں وہ لوگ خواب ہوئے گرد ماہ و سال ہوئے مسافروں سے ...

    مزید پڑھیے

    وقت ہو رہا ہے پھر ضو فشاں ہتھیلی پر

    وقت ہو رہا ہے پھر ضو فشاں ہتھیلی پر نقش ہیں مقدر کی سرخیاں ہتھیلی پر محرم بصیرت تھا دل میں گڑ گئیں آخر روکتا بھلا کب تک برچھیاں ہتھیلی پر سر بریدہ لوگوں کا ان دنوں پڑوسی ہوں اور اٹھائے پھرتا ہوں آشیاں ہتھیلی پر اب کے بھی نہیں آیا ابر و باد کا موسم بوند کو ترستی ہیں سیپیاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2