ہے جو طوفان بے نواؤں میں

ہے جو طوفان بے نواؤں میں
پھیلنے کو ہے اب ہواؤں میں


راکھ دل کی کریدنے والو
آگ لگ جائے گی فضاؤں میں


مجھ کو چونکائے کیا کوئی نغمہ
گم ہوں میں اپنی ہی صداؤں میں


بس یہی ہے فسانۂ ہستی
سانس لی گھر گئے بلاؤں میں


اور معیار حق بلند ہوا
کچھ اضافہ ہوا سزاؤں میں


آنکھ رکھتی ہے کیا سماعت بھی
صورتیں دیکھ لیں صداؤں میں


عمر بھر ڈھونڈتے رہے ساغرؔ
بوئے اخلاص کج اداؤں میں