Imtiyaz Saghar

امتیاز ساغر

امتیاز ساغر کی غزل

    دن کسی صورت گزرتا ہی نہیں

    دن کسی صورت گزرتا ہی نہیں ریت پر چہرہ ابھرتا ہی نہیں جی رہے ہیں نفرتوں کے درمیاں چہرۂ امکاں نکھرتا ہی نہیں تا ابد جاری رہے رقص جنوں گھر کا سناٹا بکھرتا ہی نہیں دیکھنا قحط جمال زندگی شہر میں کوئی سنورتا ہی نہیں جانے کیا اس کی نظر نے کر دیا دل کسی پہلو ٹھہرتا ہی نہیں نشۂ ہستی ...

    مزید پڑھیے

    آدمی خود کو عجب رنگ میں ڈوبا دیکھے

    آدمی خود کو عجب رنگ میں ڈوبا دیکھے ہونٹ تشنہ ہوں مگر آنکھ میں دریا دیکھے زیست کرنے کے لئے عمر بہت تھوڑی ہے اپنی دنیا سے الگ کیا کوئی دنیا دیکھے دشت تنہائی میں اب لمس جدائی بھی نہیں آئینہ گر سے کہو اپنا تماشا دیکھے شہر آشوب میں مہتاب صفت کوئی تو ہو زندگی بیت رہی ہے کوئی چہرہ ...

    مزید پڑھیے

    ہر بے خطا ہے آج خطا کار دیکھنا

    ہر بے خطا ہے آج خطا کار دیکھنا سچائیوں پہ جھوٹ کی یلغار دیکھنا تقدیر بن نہ جائے شب تار دیکھنا بجھنے کو ہے چراغ سر دار دیکھنا مقتول کی جبیں پہ ہے قاتل لکھا ہوا کیا فیصلہ ہو کل سر دربار دیکھنا ہوگا بہت شدید تمازت کا انتقام سائے سے مل کے روئے گی دیوار دیکھنا ان پتھروں کے سائے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2