ٹوٹ کر اور بھی گداز ہوا

ٹوٹ کر اور بھی گداز ہوا
دل ہمارا نوائے ساز ہوا


آنکھ جھپکی کہ آئنہ ٹوٹا
ہجر کا سلسلہ دراز ہوا


تیرے پردے میں اپنی خواہش کی
میں کہاں خود سے بے نیاز ہوا


کثرت ورد اسم اعظم سے
منکشف دل پہ حرف راز ہوا


دھوپ اوڑھے رہا بدن برسوں
تب کہیں جا کے امتیاز ہوا