وقت ہو رہا ہے پھر ضو فشاں ہتھیلی پر
وقت ہو رہا ہے پھر ضو فشاں ہتھیلی پر
نقش ہیں مقدر کی سرخیاں ہتھیلی پر
محرم بصیرت تھا دل میں گڑ گئیں آخر
روکتا بھلا کب تک برچھیاں ہتھیلی پر
سر بریدہ لوگوں کا ان دنوں پڑوسی ہوں
اور اٹھائے پھرتا ہوں آشیاں ہتھیلی پر
اب کے بھی نہیں آیا ابر و باد کا موسم
بوند کو ترستی ہیں سیپیاں ہتھیلی پر
جب گھروں کے آنگن میں چاندنی بکھرتی ہے
خون دل سجاتی ہیں لڑکیاں ہتھیلی پر
صحن گل کی رونق ہیں قید کر نہیں سکتے
رنگ چھوڑ جاتی ہیں تتلیاں ہتھیلی پر
پتھروں سے ٹکرا کر چور ہو گیا ساغرؔ
ہم سجائے پھرتے ہیں کرچیاں ہتھیلی پر