کھلی جو آنکھ تو صدیوں کا فاصلہ نکلا
کھلی جو آنکھ تو صدیوں کا فاصلہ نکلا
مرے وجود میں اک شخص دوسرا نکلا
عجب نہ تھا مجھے صحرا کی دھوپ کھا جاتی
قدم بڑھائے جنوں نے تو راستہ نکلا
خبر نہیں کہ وہ آشوب وقت کیسا تھا
ہر ایک آنکھ میں برسوں کا رتجگا نکلا
فراق صبح میں وہ آنکھ جل رہی تھی مگر
بجھا ہوا در ہجراں پہ اک دیا نکلا
غضب کی آگ دہکنے لگی ہے سینوں میں
یہ کون دھوپ میں لے کر کے آئنہ نکلا
ہر ایک پھول نے جھک کر تجھے سلامی دی
جو صحن گل میں کبھی تیرا تذکرہ نکلا
پلک جھپکتے ہی دنیا بدل گئی ساغرؔ
کہ میرا سایہ بھی مجھ سے گریز پا نکلا