رموز چشم کرم سے جو با کمال ہوئے
رموز چشم کرم سے جو با کمال ہوئے
نصاب عشق میں وہ لوگ لا زوال ہوئے
حریم ناز تری بزم سے نکالے ہوئے
سفیر نور ہوئے آئنہ مثال ہوئے
کبھی گزر تو سہی تو بھی اس خرابے سے
کبھی تو دیکھ کہ ہم کتنے پائمال ہوئے
ہوائے کوئے تمنا پکارتی ہے جنہیں
وہ لوگ خواب ہوئے گرد ماہ و سال ہوئے
مسافروں سے کہو حد شہر ختم ہوئی
یہ دشت ہجر ہے چہرے یہاں خیال ہوئے
یہ کیسی صبح تمنا ہے گھر کے آنگن میں
اسیر ظلمت شب میرے نونہال ہوئے
کوئی تو دیکھے یہ محبوبیت کی منزل بھی
جمال کون و مکاں نذر خد و خال ہوئے