پہلے صبح کا روشن تارا صرف ہمارے دھیان میں تھا

پہلے صبح کا روشن تارا صرف ہمارے دھیان میں تھا
لیکن عزم کی لو بھڑکی تو سورج بھی امکان میں تھا


شہر جاں سے دشت عدم تک کرب کا موسم ساتھ رہا
جانے کس کی کھوج میں تھے ہم کس کا چہرہ دھیان میں تھا


شہر سود و زیاں میں شور تھا گھٹتے بڑھتے نرخوں کا
لیکن اس شفاف گلی کا ہر لمحہ نروان میں تھا


محرومی کی برف پگھل کر میری رگوں میں جم جاتی
آنکھ میں سورج در آتے ہی جسم بھی آتش دان میں تھا


میں ٹھہرا اک مفلس شاعر نذر اسے کرتا بھی کیا
بس یہ جیون وار آیا ہوں جیون ہی امکان میں تھا


ساری عمر گزاری ساغرؔ تب یہ طلسم ذات کھلا
اک چہرے کا عکس تھا مجھ میں اک چہرہ گلدان میں تھا