غلام زادوں میں کوئی غلام ہے ہی نہیں
غلام زادوں میں کوئی غلام ہے ہی نہیں
ہمارے شہر میں سچ کا نظام ہے ہی نہیں
یہ لوگ جلد ہی پتھر میں ڈھلنے والے ہیں
یہاں کسی سے کوئی ہم کلام ہے ہی نہیں
میں دیکھتا ہوں انہیں اور گزرتا جاتا ہوں
تمام چہرے ہیں چہروں کے نام ہے ہی نہیں
تمہاری مرضی ہے رکھ لو ہمیں یا ٹھکرا دو
ہمارے پاس محبت کا دام ہے ہی نہیں
یہ لوگ اسے تری تصویر ہی سمجھتے ہیں
پر اس کے جیسا کوئی خوش کلام ہے ہی نہیں
وہاں پہ خوابوں کو خیرات کر کے چلتے بنو
جہاں شعور حلال و حرام ہے ہی نہیں
ذرا سی لہجے کی نرمی سے مان جائیں گے
کہ بگڑے لوگوں کا کوئی امام ہے ہی نہیں