مکین چھوڑ گئے خواب عین رات کے بیچ

مکین چھوڑ گئے خواب عین رات کے بیچ
کہ جیسے دکھ نکل آیا ہو میری بات کے بیچ


میں جس سے ہاتھ ملاتا ہوں پھر نہیں ملتا
نہ جانے کون سا رستہ ہے میرے ہاتھ کے بیچ


وہ آج آئی تو میں دور سے ہی جان گیا
میں جس کو ڈھونڈھتا رہتا تھا پھول پات کے بیچ


اسی سبب سے تو مصرف کھلا تھا کانوں کا
وہ ایک فون جو آتا تھا چھ اور سات کے بیچ


ہمارے دل کو بہ ہر حال سرسری نہ سمجھ
ذرا ذرا سی تو دھڑکن ہے اب بھی دھات کے بیچ


ہم اس سے پہلے صف دشمناں میں رہتے تھے
پھر ایک پھول کھل آیا تھا عین گھات کے بیچ