Iftikhar Naseem

افتخار نسیم

ہم جنس پرست پاکستانی شاعر جو امریکہ میں رہتے تھے

Known for open expression of homosexual themes in Urdu literature.

افتخار نسیم کی غزل

    اس طرح سوئی ہیں آنکھیں جاگتے سپنوں کے ساتھ

    اس طرح سوئی ہیں آنکھیں جاگتے سپنوں کے ساتھ خواہشیں لپٹی ہوں جیسے بند دروازوں کے ساتھ رات بھر ہوتا رہا ہے اس کے آنے کا گماں ایسے ٹکراتی رہی ٹھنڈی ہوا پردوں کے ساتھ ایک لمحے کا تعلق عمر بھر کا روگ ہے دوڑتے پھرتے رہو گے بھاگتے لمحوں کے ساتھ میں اسے آواز دے کر بھی بلا سکتا نہ ...

    مزید پڑھیے

    شام سے تنہا کھڑا ہوں یاس کا پیکر ہوں میں

    شام سے تنہا کھڑا ہوں یاس کا پیکر ہوں میں اجنبی ہوں اور فصیل شہر سے باہر ہوں میں تو تو آیا ہے یہاں پر قہقہوں کے واسطے دیکھنے والے بڑا غمگین سا منظر ہوں میں میں بچا لوں گا تجھے دنیا کے سرد و گرم سے ڈھانپ لے مجھ سے بدن اپنا تری چادر ہوں میں اب تو ملتے ہیں ہوا سے بھی در و دیوار ...

    مزید پڑھیے

    جانے والوں کے لیے تو اور کیا لے جائے گا

    جانے والوں کے لیے تو اور کیا لے جائے گا دیکھ لے دنیا جہاں تک راستہ لے جائے گا خواہش گفتار رہ جائے گی پھر زیر زباں اذن تو دے دے گا لیکن حوصلہ لے جائے گا گونج بن کر لوٹ جائے گی مری فریاد بھی شب کا سناٹا کہاں میری صدا لے جائے گا دل سے مٹ جائے گا اک دن دیکھنے ملنے کا شوق جتنے منظر ہیں ...

    مزید پڑھیے

    گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر

    گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر محاذ زیست سے لوٹا ہوں سرخ رو ہو کر اسی کی دید کو اب رات دن تڑپتے ہیں کہ جس سے بات نہ کی ہم نے دو بدو ہو کر بجھا چراغ ہے دل کا وگرنہ کیسے مجھے نظر نہ آئے گا وہ میرے چار سو ہو کر ہم اپنے آپ ہی مجرم ہیں اپنے منصف بھی خود اعتراف کریں اپنے روبرو ہو کر اس ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہے تری تلاش پہ اب تک یقیں مجھے

    یوں ہے تری تلاش پہ اب تک یقیں مجھے جیسے تو مل ہی جائے گا پھر سے کہیں مجھے میں نے تو جو بھی دل میں تھا چہرے پہ لکھ لیا تو ہے کہ ایک بار بھی پڑھتا نہیں مجھے ڈھلتے ہی شام ٹوٹ پڑا سر پہ آسماں پھر میرا بوجھ لے گیا زیر زمیں مجھے تعبیر جاگتی ہوئی آنکھوں کو کیا ملے اک خواب بھی تو شب نے ...

    مزید پڑھیے

    سزا ہی دی ہے دعاؤں میں بھی اثر دے کر

    سزا ہی دی ہے دعاؤں میں بھی اثر دے کر زبان لے گیا میری مجھے نظر دے کر خود اپنے دل سے مٹا دی ہے خواہش پرواز اڑا دیا ہے مگر اس کو اپنے پر دے کر نکل پڑے ہیں سبھی اب پناہ گاہوں سے گزر گئی ہے سیہ شب غم سحر دے کر اسے میں اپنی صفائی میں کیا بھلا کہتا وہ پوچھتا تھا جو مہلت بھی مختصر دے ...

    مزید پڑھیے

    ہے جستجو اگر اس کو ادھر بھی آئے گا

    ہے جستجو اگر اس کو ادھر بھی آئے گا نکل پڑا ہے تو پھر میرے گھر بھی آئے گا تمام عمر کٹے گی یوں ہی سرابوں میں وہ سامنے بھی نہ ہوگا نظر بھی آئے گا جو غم ہوا ہے نئے شہر کے مکانوں میں وہ دیکھنے کو کبھی یہ کھنڈر بھی آئے گا رچی ہے میرے بدن میں تمام دن کی تھکن ابھی تو رات کا لمبا سفر بھی ...

    مزید پڑھیے

    تمام عمر سفر کا ثمر ملے گا مجھے

    تمام عمر سفر کا ثمر ملے گا مجھے پس افق ہی کہیں اب تو گھر ملے گا مجھے یہ کس لیے میں خلا در خلا بھٹکتا ہوں وہ کون ہے جو مرا چاند پر ملے گا مجھے ملا نہ جس کے لیے گھر کا نرم گرم سکون یہیں کہیں وہ سر رہ گزر ملے گا مجھے عذاب یہ ہے کہ تنہا کٹے گی عمر تمام سفر کے بعد کوئی ہم سفر ملے گا ...

    مزید پڑھیے

    وہ ملا مجھ کو نہ جانے خول کیسا اوڑھ کر

    وہ ملا مجھ کو نہ جانے خول کیسا اوڑھ کر روشنی گم ہو گئی اپنا ہی سایا اوڑھ کر نیند سے بوجھ ہیں پتے اونگھتے سے پیڑ ہیں شہر سویا ہے خموشی کا لبادہ اوڑھ کر ڈھونڈھتا پھرتا تھا میں ہر شخص کے اصلی نقوش لوگ ملتے تھے مجھے چہرے پہ چہرا اوڑھ کر منجمد سا ہو گیا ہوں خنکیٔ احساس سے دھوپ بھی ...

    مزید پڑھیے

    تیری آنکھوں کی چمک بس اور اک پل ہے ابھی

    تیری آنکھوں کی چمک بس اور اک پل ہے ابھی دیکھ لے اس چاند کو کچھ دور بادل ہے ابھی آنکھ تو خود کو نئے چہروں میں کھو کر رہ گئی دل مگر اس شخص کے جانے سے بوجھل ہے ابھی اب تلک چہرے پہ ہیں طوفاں گزرنے کے نشاں تہہ میں پتھر جا چکا پانی پہ ہلچل ہے ابھی تو تو ان کا بھی گلہ کرتا ہے جو تیرے نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4