تیری آنکھوں کی چمک بس اور اک پل ہے ابھی
تیری آنکھوں کی چمک بس اور اک پل ہے ابھی
دیکھ لے اس چاند کو کچھ دور بادل ہے ابھی
آنکھ تو خود کو نئے چہروں میں کھو کر رہ گئی
دل مگر اس شخص کے جانے سے بوجھل ہے ابھی
اب تلک چہرے پہ ہیں طوفاں گزرنے کے نشاں
تہہ میں پتھر جا چکا پانی پہ ہلچل ہے ابھی
تو تو ان کا بھی گلہ کرتا ہے جو تیرے نہ تھے
تو نے دیکھا ہی نہیں کچھ بھی تو پاگل ہے ابھی
کر گیا سورج مجھے تنہا کہاں لا کر نسیمؔ
کیا کروں میں راستے میں شب کا جنگل ہے ابھی