یوں ہے تری تلاش پہ اب تک یقیں مجھے
یوں ہے تری تلاش پہ اب تک یقیں مجھے
جیسے تو مل ہی جائے گا پھر سے کہیں مجھے
میں نے تو جو بھی دل میں تھا چہرے پہ لکھ لیا
تو ہے کہ ایک بار بھی پڑھتا نہیں مجھے
ڈھلتے ہی شام ٹوٹ پڑا سر پہ آسماں
پھر میرا بوجھ لے گیا زیر زمیں مجھے
تعبیر جاگتی ہوئی آنکھوں کو کیا ملے
اک خواب بھی تو شب نے دکھایا نہیں مجھے
کندہ ہے میرا نام جہاں آج بھی نسیمؔ
پہچانتے نہیں اسی گھر کے مکیں مجھے