وہ ملا مجھ کو نہ جانے خول کیسا اوڑھ کر

وہ ملا مجھ کو نہ جانے خول کیسا اوڑھ کر
روشنی گم ہو گئی اپنا ہی سایا اوڑھ کر


نیند سے بوجھ ہیں پتے اونگھتے سے پیڑ ہیں
شہر سویا ہے خموشی کا لبادہ اوڑھ کر


ڈھونڈھتا پھرتا تھا میں ہر شخص کے اصلی نقوش
لوگ ملتے تھے مجھے چہرے پہ چہرا اوڑھ کر


منجمد سا ہو گیا ہوں خنکیٔ احساس سے
دھوپ بھی نکلی ہے لیکن تن پہ کپڑا اوڑھ کر


رنگ سارے دھو گیا ہے رات کا بادل نسیمؔ
اور گھر ننگے ہوئے پانی برستا اوڑھ کر