تمام عمر سفر کا ثمر ملے گا مجھے
تمام عمر سفر کا ثمر ملے گا مجھے
پس افق ہی کہیں اب تو گھر ملے گا مجھے
یہ کس لیے میں خلا در خلا بھٹکتا ہوں
وہ کون ہے جو مرا چاند پر ملے گا مجھے
ملا نہ جس کے لیے گھر کا نرم گرم سکون
یہیں کہیں وہ سر رہ گزر ملے گا مجھے
عذاب یہ ہے کہ تنہا کٹے گی عمر تمام
سفر کے بعد کوئی ہم سفر ملے گا مجھے
کہیں دکھائی نہ دے کاش چھوڑنے والا
کہوں گا کیا میں اسے اب اگر ملے گا مجھے