Iftikhar Naseem

افتخار نسیم

ہم جنس پرست پاکستانی شاعر جو امریکہ میں رہتے تھے

Known for open expression of homosexual themes in Urdu literature.

افتخار نسیم کی غزل

    نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا

    نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا اتار پھینک دے خوش فہمیوں کے سارے غلاف جو شخص بھول گیا اس کو یاد ...

    مزید پڑھیے

    نام بھی جس کا زباں پر تھا دعاؤں کی طرح

    نام بھی جس کا زباں پر تھا دعاؤں کی طرح وہ مجھے ملتا رہا نا آشناؤں کی طرح آ کہ تیرے منتظر ہیں آج بھی دیوار و در گونجتا ہے گھر میں سناٹا صداؤں کی طرح وہ شجر جلتا رہا خود کس کڑکتی دھوپ میں جس کا سایہ تھا مرے سر پر گھٹاؤں کی طرح جھک رہے تھے باغ کے سب پھول اس کے سامنے گھاس پر بیٹھا ...

    مزید پڑھیے

    سورج نئے برس کا مجھے جیسے ڈس گیا

    سورج نئے برس کا مجھے جیسے ڈس گیا تجھ سے ملے ہوئے مجھے یہ بھی برس گیا بہتی رہی ندی مرے گھر کے قریب سے پانی کو دیکھنے کے لیے میں ترس گیا ملنے کی خواہشیں سبھی دم توڑتی گئیں دل میں کچھ ایسے خوف بچھڑنے کا بس گیا دیوار و در جھلستے رہے تیز دھوپ میں بادل تمام شہر سے باہر برس گیا تلووں ...

    مزید پڑھیے

    چاند پھر تاروں کی اجلی ریز گاری دے گیا

    چاند پھر تاروں کی اجلی ریز گاری دے گیا رات کو یہ بھیک کیسی خود بھکاری دے گیا ٹانکتی پھرتی ہیں کرنیں بادلوں کی شال پر وہ ہوا کے ہاتھ میں گوٹا کناری دے گیا کر گیا ہے دل کو ہر اک واہمے سے بے نیاز روح کو لیکن عجب سی بے قراری دے گیا شور کرتے ہیں پرندے پیڑ کٹتا دیکھ کر شہر کے دست ہوس ...

    مزید پڑھیے

    سرائے چھوڑ کے وہ پھر کبھی نہیں آیا

    سرائے چھوڑ کے وہ پھر کبھی نہیں آیا چلا گیا جو مسافر کبھی نہیں آیا ہر ایک شے مرے گھر میں اسی کے ذوق کی ہے جو میرے گھر میں بظاہر کبھی نہیں آیا یہ کون مجھ کو ادھورا بنا کے چھوڑ گیا پلٹ کے میرا مصور کبھی نہیں آیا مکاں ہوں جس میں کوئی بھی مکیں نہیں رہتا شجر ہوں جس پہ کہ طائر کبھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ترا ہے کام کماں میں اسے لگانے تک

    ترا ہے کام کماں میں اسے لگانے تک یہ تیر خود ہی چلا جائے گا نشانے تک میں شیشہ کیوں نہ بنا آدمی ہوا کیونکر مجھے تو عمر لگی ٹوٹ پھوٹ جانے تک گئے ہوؤں نے پلٹ کر صدا نہ دی مجھ کو میں کتنی بار گیا غار کے دہانے تک تجھے تو اپنے پروں پر ہی اعتبار نہیں تو کیسے آئے گا اڑ کر مرے زمانے تک کیا ...

    مزید پڑھیے

    رات کو باہر اکیلے گھومنا اچھا نہیں

    رات کو باہر اکیلے گھومنا اچھا نہیں چھوڑ آؤ اس کو گھر تک راستا اچھا نہیں غیر ہو کوئی تو اس سے کھل کے باتیں کیجئے دوستوں کا دوستوں سے ہی گلہ اچھا نہیں اتفاقاً مل گیا تو پوچھ لو موسم کا حال کیوں نہیں ملتا وہ اس سے پوچھنا اچھا نہیں چوم کر جس کو خدا کے ہاتھ سونپا تھا نسیمؔ اس کے بارے ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ لہراتا رہا وہ بیٹھ کر کھڑکی کے ساتھ

    ہاتھ لہراتا رہا وہ بیٹھ کر کھڑکی کے ساتھ میں اکیلا دور تک بھاگا گیا گاڑی کے ساتھ ہو گیا ہے یہ مکاں خالی صداؤں سے مگر ذہن اب تک گونجتا ہے ریل کی سیٹی کے ساتھ مدتیں جس کو لگی تھیں میرے پاس آتے ہوئے ہو گیا مجھ سے جدا وہ کس قدر تیزی کے ساتھ کوئی بادل میرے تپتے جسم پر برسا نہیں جل رہا ...

    مزید پڑھیے

    ابھی تو دل میں ہے جو کچھ بیان کرنا ہے

    ابھی تو دل میں ہے جو کچھ بیان کرنا ہے یہ بعد میں سہی کس بات سے مکرنا ہے تو میرے ساتھ کہاں تک چلے گا میرے غزال میں راستہ ہوں مجھے شہر سے گزرنا ہے کنار آب میں کب تک گنوں گا لہروں کو ہے شام سر پہ مجھے پار بھی اترنا ہے ابھی تو میں نے ہواؤں میں رنگ بھرنے ہیں ابھی تو میں نے افق در افق ...

    مزید پڑھیے

    مرے نقوش ترے ذہن سے مٹا دے گا

    مرے نقوش ترے ذہن سے مٹا دے گا مرا سفر ہی مرے فاصلے بڑھا دے گا اندھیری رات ہے اس تند خو سے مت کہنا وہ روشنی کے لیے اپنا گھر جلا دے گا میں اس کا سب سے ہوں پیارا مگر بچھڑتے ہی وہ سب کو یاد کرے گا مجھے بھلا دے گا بنا ہوا ہوں میں مجرم بغیر جرم کئے اب اور کیا مرا منصف مجھے سزا دے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4