سزا ہی دی ہے دعاؤں میں بھی اثر دے کر
سزا ہی دی ہے دعاؤں میں بھی اثر دے کر
زبان لے گیا میری مجھے نظر دے کر
خود اپنے دل سے مٹا دی ہے خواہش پرواز
اڑا دیا ہے مگر اس کو اپنے پر دے کر
نکل پڑے ہیں سبھی اب پناہ گاہوں سے
گزر گئی ہے سیہ شب غم سحر دے کر
اسے میں اپنی صفائی میں کیا بھلا کہتا
وہ پوچھتا تھا جو مہلت بھی مختصر دے کر
پکارتا ہوں کہ تنہا میں رہ گیا ہوں نسیمؔ
کہاں گیا ہے وہ مجھ کو مری خبر دے کر