جانے والوں کے لیے تو اور کیا لے جائے گا
جانے والوں کے لیے تو اور کیا لے جائے گا
دیکھ لے دنیا جہاں تک راستہ لے جائے گا
خواہش گفتار رہ جائے گی پھر زیر زباں
اذن تو دے دے گا لیکن حوصلہ لے جائے گا
گونج بن کر لوٹ جائے گی مری فریاد بھی
شب کا سناٹا کہاں میری صدا لے جائے گا
دل سے مٹ جائے گا اک دن دیکھنے ملنے کا شوق
جتنے منظر ہیں وہ آنکھوں میں سجا لے جائے گا
لطف پھر آئے گا کیا سیاحیٔ دل میں نسیمؔ
اس کھنڈر سے جو ملے گا وہ اٹھا لے جائے گا