Hema Kandpal Hiya

ہیما کنڈپال ہیا

ہیما کنڈپال ہیا کی غزل

    قفس کھولا تھا میں نے آج جب پنچھی اڑانے کو

    قفس کھولا تھا میں نے آج جب پنچھی اڑانے کو پرندہ رک گیا اک جیل کے قصہ سنانے کو یہ تنہائی گھٹن اور بے بسی کمرے میں پھیلی ہے رکھی تھی چھت پہ آنکھیں دو کبھی ہم نے سکھانے کو درختوں کی وہ پرچھائی وہ آنگن کا کھلا ہونا کہاں آتی ہے اب چڑیا گھروں میں چہچہانے کو مرے پیروں کی یہ زنجیر اس پل ...

    مزید پڑھیے

    جانتی ہوں شہر میں اک گھر بنانا مسئلہ ہے

    جانتی ہوں شہر میں اک گھر بنانا مسئلہ ہے گاؤں کو اپنے بلکتا چھوڑ آنا مسئلہ ہے زندگی کی لاش کب سے ہی پڑی ہے در پہ میرے کون مرگھٹ لے کے جائے یاں تو شانا مسئلہ ہے نوچ کر سب پنکھ ان کے اڑ گئے ہیں پیر والے ان پرندوں کا زمیں پر پنکھ پانا مسئلہ ہے ناپ لوں گی عرش میں بھی صبر بس مجھ کو ہے ...

    مزید پڑھیے

    بھاگ سنوارا جا سکتا تھا

    بھاگ سنوارا جا سکتا تھا ہم کو مارا جا سکتا تھا اک بوڑھے دریا تک چل کر آج کنارا جا سکتا تھا ان سے ملنے کی خاطر تو سب کچھ وارا جا سکتا تھا چھوڑ کے جانے والے تیرا نام پکارا جا سکتا تھا جو رشتہ مرنے والا تھا جلدی مارا جا سکتا تھا اس کی آنکھیں پڑھ کر بھی تو وقت گزارا جا سکتا تھا لا ...

    مزید پڑھیے

    مقتل میں چلنے والا ہر چاقو مانگے آزادی

    مقتل میں چلنے والا ہر چاقو مانگے آزادی سڑکوں پر اٹھنے والا ہر بازو مانگے آزادی راکھ سمیٹے چولھے کی وہ روٹی اکثر کہتی ہے امی کے بوڑھے ہاتھوں کا جادو مانگے آزادی آزادی سے آزادی کا رونا ہم کو رونا ہے آزادی سے آزادی کی خوشبو مانگے آزادی خبریں کچھ الٹی سیدھی سی قاصد لے کر آیا ...

    مزید پڑھیے

    نصف کھلی آنکھوں سے دیکھا سب مبہم مبہم لاگے

    نصف کھلی آنکھوں سے دیکھا سب مبہم مبہم لاگے دہشت اوڑھی دھرتی کو اب آہو بھی ضیغم لاگے گام رکھوں کس کے سر پر اب پوچھے مجھ سے اک وامن اک پگ میں جگ ناپ لیا پھر سر میرا بھی کم لاگے بھیگی آنکھیں دیکھ مری وہ ہنس کر مجھ سے کہتا تھا گل رو تیرے چہرے پر تو آنسو بھی شبنم لاگے سندر ون سے آئی ...

    مزید پڑھیے

    پرندوں کا شجر کو چھوڑ کر جانا ضروری تھا

    پرندوں کا شجر کو چھوڑ کر جانا ضروری تھا کہ طائر کو خزاں کا خوف بھی کھانا ضروری تھا کہانی میں سناتی روز اک اس کو رہائی کی قفس میں قید دل کو خواب دکھلانا ضروری تھا جو ہوتی عطر میں تو بس ہی جاتی جسم میں تیرے میں تھی تلسی مرا آنگن کو مہکانا ضروری تھا ہزاروں حسرتیں ہیں خواہشیں ہیں ...

    مزید پڑھیے

    سرسوں کے کھیتوں میں اپنے کاغذ دھانی کرتے کرتے

    سرسوں کے کھیتوں میں اپنے کاغذ دھانی کرتے کرتے غزلیں ساری لکھی ہم نے خوں کو پانی کرتے کرتے مجبوری کے چاول بھونے لاچاری دو مٹھی ڈالی ہم نے کھایا غم کو اپنے پھر گڑ دھانی کرتے کرتے اس دنیا میں جو بھی بھایا اس کو ہم نے خود سا سمجھا اک عرصہ بیتا ہے ہم کو یہ نادانی کرتے کرتے کیوں دریا ...

    مزید پڑھیے

    کسی بھی شخص پر کب مہرباں تھے ہم

    کسی بھی شخص پر کب مہرباں تھے ہم یہ تھا الزام کے کچھ بد گماں تھے ہم نہ لکھی ہی گئی آہیں نہ کام دل تبھی جانا کے کتنے بے کساں تھے ہم تمہیں بھی راہ سے بھٹکا دیا ہم نے اجی چھوڑو کبھی تو راہ داں تھے ہم وہ چلتا ساتھ بھی تو کب تلک چلتا وہ قصہ اور لمبی داستاں تھے ہم گو مژگاں میں رہے اٹکے ...

    مزید پڑھیے