جانتی ہوں شہر میں اک گھر بنانا مسئلہ ہے
جانتی ہوں شہر میں اک گھر بنانا مسئلہ ہے
گاؤں کو اپنے بلکتا چھوڑ آنا مسئلہ ہے
زندگی کی لاش کب سے ہی پڑی ہے در پہ میرے
کون مرگھٹ لے کے جائے یاں تو شانا مسئلہ ہے
نوچ کر سب پنکھ ان کے اڑ گئے ہیں پیر والے
ان پرندوں کا زمیں پر پنکھ پانا مسئلہ ہے
ناپ لوں گی عرش میں بھی صبر بس مجھ کو ہے کرنا
کچھ مری مجبوریوں کا آج مانا مسئلہ ہے
اس نے اپنے رنگ سے جب رنگ دی ہے روح میری
کیوں ہتھیلی کی حنا کا پھر جمانا مسئلہ ہے
تھا سکوں دل کو حیاؔ کچی لکھائی میں ہی پہلے
اب تو پکی میں بھی اس کا چین پانا مسئلہ ہے