پرندوں کا شجر کو چھوڑ کر جانا ضروری تھا

پرندوں کا شجر کو چھوڑ کر جانا ضروری تھا
کہ طائر کو خزاں کا خوف بھی کھانا ضروری تھا


کہانی میں سناتی روز اک اس کو رہائی کی
قفس میں قید دل کو خواب دکھلانا ضروری تھا


جو ہوتی عطر میں تو بس ہی جاتی جسم میں تیرے
میں تھی تلسی مرا آنگن کو مہکانا ضروری تھا


ہزاروں حسرتیں ہیں خواہشیں ہیں قید جب دل میں
مجھے پا کر ترا ان کو بھی تو پانا ضروری تھا


کیا بوتل میں دل کو قید پھر پھینکا سمندر میں
مرے سینہ سے دل کا دور ہو جانا ضروری تھا


بتا کر دودھ جب پانی دیا تھا ساتھ روٹی کے
یوں ماں کا رات پھر بچوں کو بہلانا ضروری تھا


اذیت رات کھانے میں پروسی مفلسی کے ساتھ
ہیاؔ کا حوصلہ پھر ساتھ میں کھانا ضروری تھا