قفس کھولا تھا میں نے آج جب پنچھی اڑانے کو

قفس کھولا تھا میں نے آج جب پنچھی اڑانے کو
پرندہ رک گیا اک جیل کے قصہ سنانے کو


یہ تنہائی گھٹن اور بے بسی کمرے میں پھیلی ہے
رکھی تھی چھت پہ آنکھیں دو کبھی ہم نے سکھانے کو


درختوں کی وہ پرچھائی وہ آنگن کا کھلا ہونا
کہاں آتی ہے اب چڑیا گھروں میں چہچہانے کو


مرے پیروں کی یہ زنجیر اس پل چھن چھنا اٹھی
ہلایا پیر جب بھی خواب میں پائل بجانے کو


خموشی یہ میرے اندر کی شب بھر رقص کرتی ہے
میں گاتی لوریاں اور تھپکیاں دیتی سلانے کو


گئی تھی آسماں پہ میں جو چھونے چاند اور تارے
فقط جگنو لگے ہیں ہاتھ میرے جگمگانے کو


کتابوں سے یقیناً جی حیاؔ اب بھر گیا ہوگا
وہ مدت بعد لوٹا ہے مرا در کھٹکھٹانے کو