Hasan Naim

حسن نعیم

حسن نعیم کی غزل

    بسر ہو یوں کہ ہر اک درد حادثہ نہ لگے

    بسر ہو یوں کہ ہر اک درد حادثہ نہ لگے گزر بھی جائے کوئی غم تو واقعہ نہ لگے کبھی نہ پھول سے چہرے پہ گرد یاس جمے خدا کرے کہ اسے عشق کی ہوا نہ لگے نظر نہ آئے مجھے حسن کے سوا کچھ بھی وہ بے وفا بھی اگر ہے تو بے وفا نہ لگے یہی دعا ہے وہ جب ہو جمال سے آگاہ لباس ناز بھی پہنے تو دوسرا نہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ کج نگاہ نہ وہ کج شعار ہے تنہا

    وہ کج نگاہ نہ وہ کج شعار ہے تنہا بس اک پیمبر جنت نثار ہے تنہا نہ بلبلوں کی اذاں ہے نہ تتلیوں کا طواف ابھی چمن میں گل نو بہار ہے تنہا اٹھائے منت صرصر کہ ناز باد نسیم ہر ایک حال میں صحرا شکار ہے تنہا فلک نجوم سے روشن زمیں چراغوں سے ہجوم نور میں اک شام تار ہے تنہا جمی ہے بزم مسرت ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو کوئی بھی صلہ ملنے میں دشواری نہ تھی

    مجھ کو کوئی بھی صلہ ملنے میں دشواری نہ تھی سب ہنر آتے تھے لیکن عقل سے یاری نہ تھی جن دنوں اخلاص میں تھوڑی سی عیاری نہ تھی حسن کے دربار میں ثابت وفاداری نہ تھی سرکشی کے عہد ناموں کی حفاظت کے لیے میرے قلب و جاں سے بہتر کوئی الماری نہ تھی جن اصولوں کے لیے جینا بہت مشکل ہوا ان کی ...

    مزید پڑھیے

    یاد کا پھول سر شام کھلا تو ہوگا

    یاد کا پھول سر شام کھلا تو ہوگا جسم مانوس سی خوشبو میں بسا تو ہوگا قطرۂ مے سے دبا رات نہ طوفان طلب مجھ پہ جو بیت گئی رات سنا تو ہوگا کوئی موسم ہو یہی سوچ کے جی لیتے ہیں اک نہ اک روز شجر غم کا ہرا تو ہوگا یہ بھی تسلیم کہ تو مجھ سے بچھڑ کے خوش ہے تیرے آنچل کا کوئی تار ہنسا تو ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں سے ٹپکے اوس تو جاں میں نمی رہے

    آنکھوں سے ٹپکے اوس تو جاں میں نمی رہے مہکے امید درد کی کھیتی ہری رہے یہ کیا کہ آج وصل تو کل صدمۂ فراق تب ہے مزا کہ بزم نگاراں جمی رہے کب پوچھتا ہے کوئی لگاوٹ سے دل کا حال یاروں کا ہے مزاج کہ کچھ دل لگی رہے آفات کے پہاڑ کا دن رات سامنا کس کی پناہ مانگے کہاں آدمی رہے جس نے بھی جانا ...

    مزید پڑھیے

    کوہ کے سینے سے آب آتشیں لاتا کوئی

    کوہ کے سینے سے آب آتشیں لاتا کوئی اس نوائے آگہی کو ڈوب کر گاتا کوئی دیکھتا مستی کا سنگم لب ہے یا گفتار ہے جام سے میرے جو اپنا جام ٹکراتا کوئی بادلوں کی طرح آیا برق آسا چل دیا چاند کی مانند شب بھر تو ٹھہر جاتا کوئی حسن کا دل سے تعلق دائمی ہے گرم ہے ورنہ کس کا کس سے ہے رشتہ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    قصیدہ تجھ سے غزل تجھ سے مرثیہ تجھ سے

    قصیدہ تجھ سے غزل تجھ سے مرثیہ تجھ سے ہر ایک حرف ہوا صاحب نوا تجھ سے زباں کشائی غم سے کھلی کتاب خیال ورق ورق پہ کھلا حسن مدعا تجھ سے زمیں میں پھوٹ پڑا چشمۂ جنوں ساماں گلوں میں سرد پڑی آتش قبا تجھ سے کہاں سے زود فراموشیوں کی خو سیکھی جو دیکھیے تو نہ تھی برق آشنا تجھ سے پہنچ تو ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں بس رہا ہے ادا کے بغیر بھی

    آنکھوں میں بس رہا ہے ادا کے بغیر بھی دل اس کو سن رہا ہے صدا کے بغیر بھی کھلتے ہیں چند پھول بیاباں میں بے سبب گرتے ہیں کچھ درخت ہوا کے بغیر بھی میں ہوں وہ شاہ بخت کہ دربار حسن میں چلتا ہے اپنا کام وفا کے بغیر بھی منصف کو سب خبر ہے مگر بولتا نہیں مجھ پر ہوا جو ظلم سزا کے بغیر ...

    مزید پڑھیے

    خورشید کی نگاہ سے شبنم کو آس کیا

    خورشید کی نگاہ سے شبنم کو آس کیا تصویر روزگار سے دل ہے اداس کیا شہرت کی گرد خواب کے طوفاں غموں کی دھول ان کے سوا ہے اور زمانے کے پاس کیا ٹوٹا نہ زور غم نہ زمانے کا سر جھکا نکلے گی وصل یار سے دل کی بھڑاس کیا ہم کو کتاب زیست کا ہر باب حفظ ہے اک باب غم کا صرف پڑھیں اقتباس کیا نکلے ...

    مزید پڑھیے

    ملا نہ کام کوئی عمر بھر جنوں کے سوا

    ملا نہ کام کوئی عمر بھر جنوں کے سوا تمام عیش میسر رہے سکوں کے سوا لگی وہ آگ کہ دیوار و در بھی چل نکلے کوئی مقیم نہیں گھر میں اب ستوں کے سوا میں اس کے جسم کی بیکل پکار سن بھی چکا اب اس کی آنکھ میں رکھا ہے کیا فسوں کے سوا پڑی وہ دھوپ کہ سب رنگ پڑ گئے پیلے بچا نہیں ہے کوئی سرخ میرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5