Hasan Naim

حسن نعیم

حسن نعیم کی غزل

    وہ جو درد تھا ترے عشق کا وہی حرف حرف سخن میں ہے

    وہ جو درد تھا ترے عشق کا وہی حرف حرف سخن میں ہے وہی قطرہ قطرہ لہو بنا وہی ریزہ ریزہ بدن میں ہے وہ نسیم جانے کہاں گئی وہ گلاب جانے کدھر کھلے کوئی آگ پچھلی بہار کی مرے قلب میں نہ چمن میں ہے یہی وقت سیل رواں لیے مری کشتیوں کو ڈبو گیا کوئی لہر آب حیات کی ابھی گنگ میں نہ جمن میں ہے دم ...

    مزید پڑھیے

    رشک اپنوں کو یہی ہے ہم نے جو چاہا ملا

    رشک اپنوں کو یہی ہے ہم نے جو چاہا ملا بس ہمیں واقف ہیں کیا مانگا خدا سے کیا ملا جس زمیں پہ میرا گھر تھا کیا محل اٹھا وہاں میں جو لوٹا ہوں تو خاک در نہ ہم سایہ ملا دیکھیے کب تک ملے انسان کو راہ نجات لاکھ برسوں میں تو ویراں چاند کا رستہ ملا ہر سفر اک آرزو ہے ورنہ سیر دشت میں کس کو ...

    مزید پڑھیے

    کسے بتاؤں کہ وحشت کا فائدہ کیا ہے

    کسے بتاؤں کہ وحشت کا فائدہ کیا ہے ہوا میں پھول کھلانے کا قاعدہ کیا ہے پیمبروں نے کہا تھا کہ جھوٹ ہارے گا مگر یہ دیکھیے اپنا مشاہدہ کیا ہے تمام عمر کی زحمت کا اجر یہ دنیا یہ کس سے پوچھئے آخر معاہدہ کیا ہے سبھی خموش ہیں افسردگی کا دفتر ہیں کھلے تو کیسے کہ وہ حکم عائدہ کیا ہے اسی ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑیں تو شہر بھر میں کسی کو پتہ نہ ہو

    بچھڑیں تو شہر بھر میں کسی کو پتہ نہ ہو تم کو بھی کچھ ملال ہمیں بھی گلا نہ ہو مجلس کہ خواب گاہ جہاں بھی نظر ملی ان کو یہی تھا خوف کوئی دیکھتا نہ ہو جن حادثوں کی آگ سے دامان دل جلا ممکن نہیں چراغ سخن بھی جلا نہ ہو میری غزل میں جیسا ترنم ہے سوز ہے اکثر ہوا گماں کہ اسی کی صدا نہ ہو ان ...

    مزید پڑھیے

    عشق کے باب میں کردار ہوں دیوانے کا

    عشق کے باب میں کردار ہوں دیوانے کا میں نہ آغاز نہ انجام ہوں افسانے کا کچھ نہیں نقد جنوں اپنا بجز داغ الم یوں تو ہر ذرہ گہر تاب تھا ویرانے کا حسن بھی کہتے ہیں تنویر نظر کو کچھ لوگ شمع بھی نام ہے اس بزم میں پروانے کا شکر ہے تیری طلب جزو الم ہے ورنہ مجھ میں تھا حوصلہ جینے کا نہ مر ...

    مزید پڑھیے

    ناامیدی نے یوں ستایا تھا

    ناامیدی نے یوں ستایا تھا میں نے خود ہی دیا بجھایا تھا ایک بستی ہوئی وہیں آباد تم نے خیمہ جہاں لگایا تھا کچھ ہنر کی کمی تھی قاتل میں کچھ بزرگوں کا مجھ پہ سایا تھا مجھ کو داد وفا ملی اس سے جس نے اپنا بھی گھر لٹایا تھا اب ہوں قیدی اسی پری کا نعیمؔ جس نے ہر قید سے چھڑایا تھا

    مزید پڑھیے

    میں کس ورق کو چھپاؤں دکھاؤں کون سا باب

    میں کس ورق کو چھپاؤں دکھاؤں کون سا باب کسی حبیب نے مانگی ہے زندگی کی کتاب ہمیں نہ بھولنا آلام صد زماں کہ یہاں ہمیں ہیں مسکن‌ حرماں ہمیں ہیں بیت عذاب انہی سے شب میں اجالا انہی سے نور خیال مرے لیے تو بہت کچھ ہیں دیدۂ بے خواب گیا تھا دشت سے اٹھ کر سمندروں کی طرف وہاں بھی تشنہ ...

    مزید پڑھیے

    اسی خوش نوا میں ہیں سب ہنر مجھے پہلے تھا نہ قیاس بھی

    اسی خوش نوا میں ہیں سب ہنر مجھے پہلے تھا نہ قیاس بھی اسی خوش نوا پہ سجا ہے کیا مری شاعری کا لباس بھی وہ غزل کا روپ لیے ہوئے مجھے ہر مقام پہ لے گیا کبھی دشت یار کے درمیاں کبھی شہر فکر کے پاس بھی جسے اتنا اوج نظر ملا اسے کیوں نہ درد زمیں ملے کسی فلسفے کا نزول ہے ترے لب پہ کلمۂ یاس ...

    مزید پڑھیے

    کریں نہ یاد شب حادثہ ہوا سو ہوا

    کریں نہ یاد شب حادثہ ہوا سو ہوا بھلا دیں آؤ ہر اک واقعہ ہوا سو ہوا برا ہوا کہ لڑے جاں نثار آپس میں برا ہے اور بھی یہ تذکرہ ہوا سو ہوا غضب ہوا کہ نئے لوگ آ بسے دل میں بچھڑنا ان سے الگ سانحہ ہوا سو ہوا کہاں کہاں سے نہ آفت کی آندھیاں آئیں دیار قلب میں جو زلزلے ہوا سو ہوا بہت سے ...

    مزید پڑھیے

    قلب و جاں میں حسن کی گہرائیاں رہ جائیں گی

    قلب و جاں میں حسن کی گہرائیاں رہ جائیں گی تو وہ سورج ہے تری پرچھائیاں رہ جائیں گی اہل دل کو یاد صدیوں آئے گا میرا جنوں شہرتیں ہوں گی فنا رسوائیاں رہ جائیں گی گفتگو تجھ سے کریں گی میری غزلیں صبح و شام تیری خلوت میں مری تنہائیاں رہ جائیں گی میں نکل جاؤں گا اپنی جستجو میں ایک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5