Hasan Naim

حسن نعیم

حسن نعیم کی غزل

    خیال و خواب میں کب تک یہ گفتگو ہوگی

    خیال و خواب میں کب تک یہ گفتگو ہوگی اٹھاؤ جام کہ اب بات رو بہ رو ہوگی ابھی ہوں پاس تو وہ اجنبی سے بیٹھے ہیں میں اٹھ گیا تو بہت میری جستجو ہوگی مجھے بتاؤ تو کچھ کام آ سکوں شاید تمہارے دل میں بھی اک فصل آرزو ہوگی تجھی کو ڈھونڈھتا پھرتا تھا در بہ در پھر بھی مجھے یقین تھا رسوائی کو ...

    مزید پڑھیے

    امید و یاس نے کیا کیا نہ گل کھلائے ہیں

    امید و یاس نے کیا کیا نہ گل کھلائے ہیں ہم آبشار کے بدلے سراب لائے ہیں ہوا ہے گرم اداسی کا زرد منظر ہے سبھی درخت ہری کونپلیں چھپائے ہیں کٹے ہیں پاؤں تو ہاتھوں کے بل چلے اٹھ کر مثال موج ترے ہم کنار آئے ہیں جہاں دکھائی نہ دیتا تھا ایک ٹیلہ بھی وہاں سے لوگ اٹھا کر پہاڑ لائے ہیں نہ ...

    مزید پڑھیے

    خواب کی راہ میں آئے نہ در و بام کبھی

    خواب کی راہ میں آئے نہ در و بام کبھی اس مسافر نے اٹھایا نہیں آرام کبھی رشک مہتاب ہے اک داغ تمنا کب سے دل کا نظارہ کرو آ کے سر شام کبھی شب بخیر اس نے کہا تھا کہ ستارے لرزے ہم نہ بھولیں گے جدائی کا وہ ہنگام کبھی سرکشی اپنی ہوئی کم نہ امیدیں ٹوٹیں مجھ سے کچھ خوش نہ گیا موسم آلام ...

    مزید پڑھیے

    جنگلوں کی یہ مہم ہے رخت جاں کوئی نہیں

    جنگلوں کی یہ مہم ہے رخت جاں کوئی نہیں سنگ ریزوں کی گرہ میں کہکشاں کوئی نہیں کیا خبر ہے کس کنارے اس سفر کی شام ہو کشتئ عمر رواں میں بادباں کوئی نہیں عاشقوں نے صرف اپنے دکھ کو سمجھا معتبر مہر سب کی آرزو ہے مہرباں کوئی نہیں ایک دریا پار کر کے آ گیا ہوں اس کے پاس ایک صحرا کے سوا اب ...

    مزید پڑھیے

    میں غزل کا حرف امکاں مثنوی کا خواب ہوں

    میں غزل کا حرف امکاں مثنوی کا خواب ہوں اپنی سب روداد لکھنے کے لئے بیتاب ہوں میں ببولوں کی طرح پھولا پھلا ہوں دشت میں ابر آئے یا نہ آئے میں سدا شاداب ہوں موج صہبا ہوں اگر ہے ظرف یاراں آئنہ کچھ غبار آئے نظر تو سر بسر گرداب ہوں میں ہوں اک ویراں ستارہ گر ہے کوئی نا شناس کوئی ہے روشن ...

    مزید پڑھیے

    دل میں ہو آس تو ہر کام سنبھل سکتا ہے

    دل میں ہو آس تو ہر کام سنبھل سکتا ہے ہر اندھیرے میں دیا خواب کا جل سکتا ہے عشق وہ آگ جو برسوں میں سلگتی ہے کبھی دل وہ پتھر جو کسی آن پگھل سکتا ہے ہر نراشا ہے لیے ہاتھ میں آشا بندھن کون جنجال سے دنیا کے نکل سکتا ہے جس نے ساجن کے لیے اپنے نگر کو چھوڑا سر اٹھا کر وہ کسی شہر میں چل ...

    مزید پڑھیے

    گیا وہ خواب حقیقت کو روبرو کر کے

    گیا وہ خواب حقیقت کو روبرو کر کے بہت اداس ہوں میں ان سے گفتگو کر کے ابھی نہ چھوڑ قبائے امید کا دامن ابھی تو زخم چھپا چاک دل رفو کر کے کرو نہ دفن کہ مقتل کا نام اونچا ہو لٹا دو خاک پہ لاشے کو قبلہ رو کر کے انہیں میں ماہ صفت بھی ہیں مہر آسا بھی ملے ہیں داغ کئی ان کی آرزو کر کے اٹھو ...

    مزید پڑھیے

    جبر شہی کا صرف بغاوت علاج ہے

    جبر شہی کا صرف بغاوت علاج ہے اپنا ازل سے ایک حسینی مزاج ہے آگے تو زہر عشق میں سب زہر تھے گھلے اب شاعری کی جان رگ احتجاج ہے عالی نظر کے شعر پہ تیکھے مباحثے بے نور عالموں کا مرض لا علاج ہے ہر آن ہیں دماغ میں افکار شب نواز اس غم کی سلطنت میں بس اک دل سراج ہے کیا دی ہے لب کشائی کی ...

    مزید پڑھیے

    جو غم کے شعلوں سے بجھ گئے تھے ہم ان کے داغوں کا ہار لائے

    جو غم کے شعلوں سے بجھ گئے تھے ہم ان کے داغوں کا ہار لائے کسی کے گھر سے دیا اٹھایا کسی کے دامن کا تار لائے یہ کوہساروں کی تربیت ہے کہ اپنا خیمہ جما ہوا ہے ہزار طوفاں سناں چلائے ہزار فوج غبار لائے کسے بتائیں کہ غم کے صحرا کو خلد دانش بنایا کیسے کہاں سے آب رواں کو موڑا کہاں سے باد ...

    مزید پڑھیے

    حسن کے سحر و کرامات سے جی ڈرتا ہے

    حسن کے سحر و کرامات سے جی ڈرتا ہے عشق کی زندہ روایات سے جی ڈرتا ہے میں نے مانا کہ مجھے ان سے محبت نہ رہی ہم نشیں پھر بھی ملاقات سے جی ڈرتا ہے سچ تو یہ کہ ابھی دل کو سکوں ہے لیکن اپنے آوارہ خیالات سے جی ڈرتا ہے اتنا رویا ہوں غم دوست ذرا سا ہنس کر مسکراتے ہوئے لمحات سے جی ڈرتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5