ملا نہ کام کوئی عمر بھر جنوں کے سوا

ملا نہ کام کوئی عمر بھر جنوں کے سوا
تمام عیش میسر رہے سکوں کے سوا


لگی وہ آگ کہ دیوار و در بھی چل نکلے
کوئی مقیم نہیں گھر میں اب ستوں کے سوا


میں اس کے جسم کی بیکل پکار سن بھی چکا
اب اس کی آنکھ میں رکھا ہے کیا فسوں کے سوا


پڑی وہ دھوپ کہ سب رنگ پڑ گئے پیلے
بچا نہیں ہے کوئی سرخ میرے خوں کے سوا


تمام فن کی بنا مد و جزر دل ہے نعیمؔ
کہ شعر و نغمہ میں کیا موج اندروں کے سوا