Hasan Naim

حسن نعیم

حسن نعیم کی غزل

    یہی تو غم ہے وہ شاعر نہ وہ سیانا تھا

    یہی تو غم ہے وہ شاعر نہ وہ سیانا تھا جہاں پہ انگلیاں کٹتی تھیں سر کٹانا تھا مجھے بھی ابر کسی کوہ پر گنوا دیتا میں بچ گیا کہ سمندر کا میں خزانہ تھا تمام لوگ جو وحشی بنے تھے عاقل تھے وہ ایک شخص جو خاموش تھا دوانہ تھا پتا چلا یہ ہواؤں کو سر پٹکنے پر میں ریگ دشت نہ تھا سنگ صد زمانہ ...

    مزید پڑھیے

    خواب ٹھہرا سر منزل نہ تہ بام کبھی

    خواب ٹھہرا سر منزل نہ تہ بام کبھی اس مسافر نے اٹھایا نہیں آرام کبھی شب بخیر اس نے کہا تھا کہ ستارے لرزے ہم نہ بھولیں گے جدائی کا وہ ہنگام کبھی سرکشی اپنی ہوئی کم نہ امیدیں ٹوٹیں مجھ سے کچھ خوش نہ گیا موسم آلام کبھی ہم سے آواروں کی صحبت میں ہے وہ لطف کہ بس دو گھڑی مل تو سہی گردش ...

    مزید پڑھیے

    رات گزری کہ شب وصل کا پیغام ملا

    رات گزری کہ شب وصل کا پیغام ملا سو گئے خواب کی بانہوں میں جو آرام ملا ڈھونڈتے رہیے شب و روز امیدوں کے قدم کوچۂ زیست میں لے دے کے یہی کام ملا خوبئ بخت کہ جب بھول چکا تھا سب کچھ بے وفائی کا لب غیر سے الزام ملا پا پیادہ تھا مگر راہ میں وہ دھوم مچی جھک کے تعظیم سے شہزادۂ ایام ملا ہم ...

    مزید پڑھیے

    غم سے بکھرا نہ پائمال ہوا

    غم سے بکھرا نہ پائمال ہوا میں تو غم سے ہی بے مثال ہوا وقت گزرا تو موجۂ گل تھا وقت ٹھہرا تو ماہ و سال ہوا ہم گئے جس شجر کے سائے میں اس کے گرنے کا احتمال ہوا بس کہ وحشت تھی کار دنیا سے کچھ بھی حاصل نہ حسب حال ہوا سن کے ایران کے نئے قصے کچھ عجب صوفیوں کا حال ہوا جانے زنداں میں کیا ...

    مزید پڑھیے

    ایک بھی حرف نہ تھا خوش خبری کا لکھا

    ایک بھی حرف نہ تھا خوش خبری کا لکھا نامۂ وقت ملا اور کسی کا لکھا آ بسے کتنے نئے لوگ مکان جاں میں بام و در پر ہے مگر نام اسی کا لکھا موجۂ اشک سے بھیگی نہ کبھی نوک قلم وہ انا تھی کہ کبھی درد نہ جی کا لکھا کوئی جدت تو کوئی حسن تغزل سمجھا مرثیہ جب بھی کوئی اپنی صدی کا لکھا بات شیریں ...

    مزید پڑھیے

    خیر سے دل کو تری یاد سے کچھ کام تو ہے

    خیر سے دل کو تری یاد سے کچھ کام تو ہے وصل کی شب نہ سہی ہجر کا ہنگام تو ہے نور افلاک سے روشن ہو شب غم کہ نہ ہو چاند تاروں سے مرا نامہ و پیغام تو ہے کم نہیں اے دل بیتاب متاع امید دست مے خوار میں خالی ہی سہی جام تو ہے بام خورشید سے اترے کہ نہ اترے کوئی صبح خیمۂ شب میں بہت دیر سے کہرام ...

    مزید پڑھیے

    جب کبھی میرے قدم سوئے چمن آئے ہیں

    جب کبھی میرے قدم سوئے چمن آئے ہیں اپنا دکھ درد لیے سرو و سمن آئے ہیں پاؤں سے لگ کے کھڑی ہے یہ غریب الوطنی اس کو سمجھاؤ کہ ہم اپنے وطن آئے ہیں جھاڑ لو گرد مسرت کو، بٹھا لو دل میں بھولے بھٹکے ہوئے کچھ رنج و محن آئے ہیں جب لہو روئے ہیں برسوں تو کھلی زلف خیال یوں نہ اس ناگ کو لہرانے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے

    کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے کوہ سے نیچے اتر کر کنکری چنتے ہیں اب عشق میں جو آب جو تھے جنگ میں سیلاب تھے ساز و ساماں تھے ظفر کے پر وہ شب میں لٹ گئے خاک و خوں کے درمیاں کچھ خواب کچھ کم خواب تھے کیا دم رخصت نظر آتے خطوط دلبری نقش تھے اس ...

    مزید پڑھیے

    کسی حبیب نے لفظوں کا ہار بھیجا ہے

    کسی حبیب نے لفظوں کا ہار بھیجا ہے بسا کے عطر میں دل کا غبار بھیجا ہے ہوئی جو شام تو اپنا لباس پہنا کر شفق کو جیسے دم انتظار بھیجا ہے کسی نے ڈوبتی صبحوں تڑپتی شاموں کو غزل کے جام میں شب کا خمار بھیجا ہے سجا کے دامن گل کو شرارۂ نم سے کسی نے تاج دل داغ دار بھیجا ہے کسے بلانے کو اس ...

    مزید پڑھیے

    بیان شوق بنا حرف اضطراب بنا

    بیان شوق بنا حرف اضطراب بنا وہ اک سوال کہ جس کا نہ کچھ جواب بنا میں ایک باب تھا افسانۂ وفا کا مگر تمہاری بزم سے اٹھا تو اک کتاب بنا مجھے سفیر بنا اپنا کو بہ کو اے عشق کسے ہوس ہے کہ دنیا میں کامیاب بنا میں جس خیال کو اپنا جنوں سمجھتا تھا وہی خیال زمانے کا حسن خواب بنا کبھی تو وجہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5