قصیدہ تجھ سے غزل تجھ سے مرثیہ تجھ سے
قصیدہ تجھ سے غزل تجھ سے مرثیہ تجھ سے
ہر ایک حرف ہوا صاحب نوا تجھ سے
زباں کشائی غم سے کھلی کتاب خیال
ورق ورق پہ کھلا حسن مدعا تجھ سے
زمیں میں پھوٹ پڑا چشمۂ جنوں ساماں
گلوں میں سرد پڑی آتش قبا تجھ سے
کہاں سے زود فراموشیوں کی خو سیکھی
جو دیکھیے تو نہ تھی برق آشنا تجھ سے
پہنچ تو جاتا سر خیمۂ وفا آباد
مگر ہے سست قدم عمر تیز پا تجھ سے
کیے تھے کام جو دل کے سپرد ان کو بھی
دماغ دہر سے بڑھ کر ہے اب گلہ تجھ سے
ہوا جو کوچۂ تنقید میں حسنؔ رسوا
ملایا غیب نے غالبؔ کا سلسلہ تجھ سے