دو چار گام پاس رفاقت نہ کر سکے
دو چار گام پاس رفاقت نہ کر سکے
ہم پھر بھی ان سے کوئی شکایت نہ کر سکے
کیا ایسے ہم سفر پہ بھروسہ کرے کوئی
جو دل کو بھی شریک مسافت نہ کر سکے
انساں کا احترام تھا اتنا ہمیں عزیز
ہم اپنے دشمنوں سے بھی نفرت نہ کر سکے
ہم لوگ تو کچھ ایسے قدامت پرست ہیں
پیدا کسی بھی کام میں جدت نہ کر سکے
چنتے ہو ایسا قافلہ سالار کس لیے
جو اہل کارواں کی حفاظت نہ کر سکے
ہم ایسے حکمران تھے بے اختیار سے
اس دل کی سلطنت پہ حکومت نہ کر سکے
ناراض ہم سے ہیں وہ ہمارے سکوت پر
لب کھولنے کی خود بھی جو ہمت نہ کر سکے
شاہدؔ دیار دل میں اندھیرا ہے چار سو
روشن کوئی چراغ محبت نہ کر سکے