ہر سمت زندگی کا تماشا بھی خوب ہے
ہر سمت زندگی کا تماشا بھی خوب ہے
دنیا بھی خوب رونق دنیا بھی خوب ہے
جس شہر میں کسی کو کسی کی خبر نہیں
اس شہر لا جواب میں جینا بھی خوب ہے
میخانۂ حیات کا احوال کیا لکھوں
ساقی بھی خوب ساغر صہبا بھی خوب ہے
پی کر شراب گم میں رہوں اپنے ہوش میں
اے زندگی یہ تیرا تقاضا بھی خوب ہے
دیکھا ہے میں نے اس کے زیاں میں بھی فائدہ
بازار آرزو کا خسارا بھی خوب ہے
ہوتی ہے اولیں ہی ملاقات آخری
انسان کا یہ موت سے رشتہ بھی خوب ہے
مدت سے چل رہا ہوں مگر طے نہ کر سکا
شاہدؔ یہ راہ راست تمنا بھی خوب ہے