اب کیا کہیں جو موسم گلشن کا حال ہے

اب کیا کہیں جو موسم گلشن کا حال ہے
پھولوں سے رابطہ نہ صبا کا خیال ہے


ہر آرزو کی آنکھ میں آنسو لہو کے ہیں
کس کا یہ دل کے شہر میں یوم وصال ہے


مجھ کو کیا تھا قیدیٔ تقدیر کس لیے
قدرت سے انتظار جواب و سوال ہے


جذبوں کی انجمن میں اسی کی ہے روشنی
گلہائے آرزو میں اسی کا جمال ہے


جو بخل سے کیا ہے اکٹھا تمام عمر
تیرا نہیں ہے وہ ترے بیٹوں کا مال ہے


ہر گوشۂ زمیں پہ ذرا غور سے پڑھو
لکھی جو داستان عروج و زوال ہے


شاہدؔ وہ پوچھتے ہیں مرا حال کیا کہوں
جیسا تھا پچھلے سال وہی اب کے سال ہے