رہو گے ہم سے کب تک بے خبر سے

رہو گے ہم سے کب تک بے خبر سے
جدا ہوتی نہیں دیوار در سے


مسافر حال کیا اپنا سنائے
ابھی لوٹا نہیں اپنے سفر سے


ہمیشہ تو نہیں رہتا ہے قائم
تعلق راہرو کا رہ گزر سے


مکانوں سے مکیں رخصت ہوئے ہیں
اداسی جھانکتی ہے بام و در سے


ابھی تک ہوں سفر میں ارتقا کے
مجھے لگتے تھے رستے مختصر سے


اسی مٹی سے ہے پہچان میری
محبت ہے مجھے بھی اپنے گھر سے


نہ جانے ان پہ کیا گزری تھی شاہدؔ
جدا پتے ہوئے تھے جب شجر سے