آج بھی مشکلات کم تو نہیں

آج بھی مشکلات کم تو نہیں
بارش حادثات کم تو نہیں


ایک سورج غروب ہونے سے
رونق کائنات کم تو نہیں


کیوں شکایت ہے موسم گل سے
شاخ پر پھول پات کم تو نہیں


عمر بھر کی رفاقتوں کے بعد
ہجر کی ایک رات کم تو نہیں


اس کی مرضی سے چار دن جینا
اس قدر بھی حیات کم تو نہیں


میں تری ذات ہی کا حصہ ہوں
مجھ میں تیری صفات کم تو نہیں


وقت سے کیا گلہ کروں شاہدؔ
وقت کا التفات کم تو نہیں