Gobind Parsad

گوبند پرساد

گوبند پرساد کی نظم

    میری نیند سے تمہارے سپنوں تک

    میں نے دیکھا بھیکھ مانگنے والے بچے اپنے ہی سوانگ پر جب ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں تو بھیکھ دینے والا اپنے کو ٹھگا ہوا محسوس کرتا ہے اور دتکارنے والا اپنی کرورتا پر پچھتاتا ہے آخر یہ پھیلے ہوئے ہاتھ میری نیند سے نکل کر تمہارے سپنوں تک کیوں نہیں آتے کہیں ایسا نہ ہو کہ آس امید پر جینے ...

    مزید پڑھیے

    سپنے میں سپنا دیکھا تھا

    سپنے میں سپنا دیکھا تھا نور کا اک دریا بہتا تھا نغمہ بھی وہ کیا نغمہ تھا آہ سے میری جو اپجا تھا جانے کیا ہونے والا تھا ہر منظر سہما سہما تھا ٹھہرے پانی میں ہلچل تھی پتھر کس نے پھینک دیا تھا سناٹے کے باہر بھیتر بس میں ہی چپ چاپ کھڑا تھا چہرے پر صحرا کا منظر آنکھوں میں دریا دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    دیہہ سے پرے

    ایسا کچھ ضرور ہے دنیا میں جس کی پرچھائیں نہیں بنتی اکثر دکھ بھی اپنے لئے کوئی سانچہ تلاش کر لیتے ہیں دکھوں کی فطرت ہی ہوتی ہے سمے کی گود میں بیٹھ کوئی نہ کوئی روپ دھارن کر لینا پرچھائیں سے پرے بھی ہوتی بہت سے دکھوں کی آواز آوازیں کہاں چلی جاتی ہیں کیا وہ سو جاتی ہیں چپ کے سینے ...

    مزید پڑھیے

    کوی سے

    درد تمہارا تھا شبد بھی تمہارے تھے اور گان بھی تمہارے تھے لیکن پرتدھونیوں سے گونجتا آکاش بھی کیا تمہارا تھا کوی

    مزید پڑھیے

    سمے کا راگ

    دشائیں مجھ میں سمٹ آئی ہیں آسمان ظلم‌ و جبر کے باوجود اپنے تمام رنگوں کے ساتھ میری آنکھوں میں اتر رہا ہے دھرا کی شرا شرا میں امڑ آیا ہے سمے کا راگ ہواؤں کے پار اسپرش سے پرے بھیتر جو بولتا ہے کچھ نراکار آکھر کی آگ میں نہایا ہوا ہاتھوں میں پور پور میں کرم سا سمایا ہوا پوروج کے ...

    مزید پڑھیے

    پانی کی عمر

    ہر اس چیز کے بارے میں کچھ بھی کہنا خطرناک ہے جس کا کوئی رنگ نہیں ہوتا جیسے پانی پانی کی خاموشی خاموشی کے بھیتر اتل میں انل سی پل پل دھدھکتی چھٹپٹاتی بھاشا اور پھر یہ کہنا بھی اتنا آسان کہاں ہے کہ پرانا قلعہ پرانا ہے یا قلعے کے پتھروں سے لگا میکھلا کار ٹھہرا ہوا پانی بھاشا کو ...

    مزید پڑھیے

    درد کی پہچان

    کبھی تمہارا چہرہ آئینہ تھا جس کی لکیروں کا تمل ناد دکھ کے پہاڑوں سا میری بھیتری ندی کے تھپیڑوں سے ٹکرا کر گلتا تھا درد رس رس کر ہوتا جاتا تھا دیپت دنوں دن آج بھی وہی چہرہ ہے وہی لکیریں ہیں وہی دکھ ہیں وہی پہاڑ ہیں دوست نہیں ہے تو بس وہ بھیتری ندی جس نے دکھ کے پہاڑوں کو گلا دیا ...

    مزید پڑھیے

    بے آواز دکھ

    دکھ ندی ہے گہری سمرتیوں کی بہتی رہی بے آواز تھکی ٹوٹی اکیلے پن سے پر کہاں ٹھہری

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2