سمے کا راگ

دشائیں مجھ میں سمٹ آئی ہیں
آسمان ظلم‌ و جبر کے باوجود
اپنے تمام رنگوں کے ساتھ
میری آنکھوں میں اتر رہا ہے
دھرا کی شرا شرا میں
امڑ
آیا ہے سمے کا راگ
ہواؤں کے پار
اسپرش سے پرے
بھیتر جو بولتا ہے
کچھ نراکار
آکھر کی آگ میں
نہایا ہوا
ہاتھوں میں پور پور میں
کرم سا سمایا ہوا
پوروج کے پوروش سایہ کال پشپ
مون اپنے پرواہ میں ہے لے مان
گتیوں سے آبدھ میں
شبد اتیت گان
پرتھوی اپنے اس چھن میں سندرتم ہے
کیوں کہ اس نے شبد کو دھارن کیا ہے
اس لئے مجھ پر جو بیت رہی ہے
شاید وہ کویتا ہے
اور یہ چھن
اتہاس پرتھوی سرشٹی کیا
پورے برہمانڈ پر بھاری ہے