دیہہ سے پرے

ایسا کچھ ضرور ہے
دنیا میں جس کی پرچھائیں نہیں بنتی


اکثر دکھ بھی
اپنے لئے کوئی سانچہ تلاش کر لیتے ہیں
دکھوں کی فطرت ہی ہوتی ہے
سمے کی گود میں بیٹھ کوئی نہ کوئی روپ دھارن کر لینا


پرچھائیں سے پرے بھی ہوتی
بہت سے دکھوں کی آواز
آوازیں کہاں چلی جاتی ہیں
کیا وہ سو جاتی ہیں چپ کے سینے میں
بھانس بن کر


ہاں کچھ چیزیں دیہہ سے پرے ضرور ہیں
جن کی پرچھائیں نہیں ہوتی
جیسے ہوا کا سسکنا
یا کسی دکھ کا بے آواز ہوتے ہوتے
چیخ میں بدل جانا
تو اس چیخ کی پرچھائیں کہاں ہے
کہاں ہے اس سسکنے کی پرچھائیں