سپنے میں سپنا دیکھا تھا
سپنے میں سپنا دیکھا تھا
نور کا اک دریا بہتا تھا
نغمہ بھی وہ کیا نغمہ تھا
آہ سے میری جو اپجا تھا
جانے کیا ہونے والا تھا
ہر منظر سہما سہما تھا
ٹھہرے پانی میں ہلچل تھی
پتھر کس نے پھینک دیا تھا
سناٹے کے باہر بھیتر
بس میں ہی چپ چاپ کھڑا تھا
چہرے پر صحرا کا منظر
آنکھوں میں دریا دیکھا تھا
دل کے صحرا میں جانے کیوں
ایک سمندر چیخ رہا تھا
بجلی سی وہ کیا چمکی تھی
پانی سا وہ کیا برسا تھا
ظاہر میں وہ خوش تھا لیکن
اندر سے ٹوٹا ٹوٹا تھا
کل اس کی سوکھی آنکھوں سے
ایک سمندر جھانک رہا تھا
چھوڑو اب وہ پہلی باتیں
سمجھو اک سپنا دیکھا تھا
اشکوں کی قندیل جلا کر
کوئی رستہ دیکھ رہا تھا
تیرے آنے سے پہلے بھی
اس جنگل میں پھول کھلا تھا
سنتے ہیں وہ ہم سے بچھڑ کے
کھویا کھویا سا رہتا تھا