Gobind Parsad

گوبند پرساد

گوبند پرساد کی نظم

    شبدوں کا گل مہر

    کال نے لکھ دیا مجھے شبدوں کے مانند میرے یگ کے چہرے پر چاہتا ہوں فقط شبدوں کا سلگتا گل مہر بطور وصیت اگلے یگ کو سونپا جائے

    مزید پڑھیے

    ماں

    دو لہریں ساتھ رہتی ہوئی جب کبھی ملنے کو ہوتی ہیں تو لگتا ہے ماں کے ہونٹھ کچھ کہنا چاہتے ہیں ندی کبھی سوتی نہیں ہے مڑتی ٹھٹھکتی بھٹکتی اور ٹکراتی ا ورام بہتی رہتی ہے ندی صدیوں تک بہت ہوا تو اونگھتی ہیں اس کی لہریں اداسی میں کبھی کبھی پانی کی پرتوں کے بیچ گونجتا ہے سناٹا کچھ ٹوٹتا ...

    مزید پڑھیے

    سچ

    کانپتے ہاتھوں سے میں جہاں لکھوں گا پیار وہاں کمل پتر کھل جائے گا ایک دن بھیتر جنم لیتے امڈتے نادانراگی ساگر کی لہروں پر تر کر اک دن وہ سچ ہو جائے گا سچ مجھے معلوم نہیں تھا

    مزید پڑھیے

    سورج

    ہر روز کی طرح دن آج بھی سورج کی گواہی لے کر آخر اندھیری گلیوں میں گھس آیا اور ہم اپنے اپنے گھر کے نیایے دھیش سورج کی گواہی کے عادی ہو چکے ہیں سچ مان لیتے ہیں اور یوں کہیں نہ کہیں اپنے ہی بکھراؤ میں ساجھی ہو چکے ہیں ہمیں اس سورج کی گواہی نہیں چاہیے جو کسی پیشے ور گواہ کی طرح دن کی ...

    مزید پڑھیے

    بے آواز دکھ

    دکھ ندی ہے گہری سمرتیوں کی بہتی رہی بے آواز تھکی ٹوٹی اکیلے پن سے پر کہاں ٹھہری

    مزید پڑھیے

    رشتہ

    بھوک کے شیشے بھی دھندھلے پڑ چکے ہیں اب شیشہ تو ذریعہ تھا اٹھے ہوئے ہاتھوں اور سوئے ہوئے بد رنگ دھبوں کے بیچ آر پار دیکھنے کا بندھی ہوئی مٹھی اور پھیلے ہوئے ہاتھوں کے بیچ چپ اور چلاتے ہوئے ہاتھوں کے بیچ روٹی ایک رشتہ تھی اور یہ رشتہ بھی بھوک کے شیشوں کی طرح دھندھلا ہوتا جا رہا ...

    مزید پڑھیے

    پہاڑ

    جاتی ہوئی دھوپ میں بیٹھے بتیاتے یہ پہاڑی لوگ مجھے لگتا ہے اپنے دکھوں کو سیک سیک کر سکھوں میں بدل رہے ہیں گنگناتے ہوئے جو دیکھتے دیکھتے چھیج جائیں گے سرکتی ہوئی دھوپ کی طرح کیا سکھ کو دھوپ کے ٹکڑوں کی طرح تھوڑی دیر تک اور ٹھہرایا نہیں جا سکتا سوچتے سوچتے میں چلتا ہوں چل دیتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    وقت اور ہم

    شاہ وقت کا اپنا کوئی چہرہ نہیں ہوتا ہم خادموں نے ہی اس کے چہرے کو اس قدر سنوار دیا ہے کہ آئنے کے سامنے گھنٹوں کھڑے رہ کر وہ خود بینی کر سکے چہرے کے بھیتر دیکھو آئینہ در آئینہ چہرہ وقت کے پار دوستو ہم خود ہی چہرے ہیں اور اپنے آئینے بھی خود ہیں ہم سب کے چہروں میں ہی وقت کا بے رحم ...

    مزید پڑھیے

    پرچھائیں

    بوڑھا خوش تھا پل پر کھڑا ہوا اپنی پرچھائیں کو جیوں کی تیوں دیکھ کر پانی میں تبھی ایک لڑکا آیا اور اس نے ڈھیلا دے مارا اب بوڑھے کی اداس پرچھائیاں کانپ رہی تھیں لڑکے کی آنکھوں میں پانی میں نہیں لیکن ابھی لڑکا اس بوڑھے کی طرح خوش نہیں تھا اور نہ ہی وہ اپنی پرچھائیں دیکھ رہا تھا ...

    مزید پڑھیے

    ڈر

    جب بازار گیا تھا تو اچھاؤں کا کھیت تھا آنکھوں میں لہراتا ہوا سپنوں کا سمدر تھا بازار سے لوٹا ہوں اب تو گھر گرہستی کی اچھا سپنا بن کر سامنے کھڑی ہے مجھے ڈر ہے میرے پیچھے بازار سے لوٹنے والا میرا پڑوسی سپنا نہ بن جائے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2