سورج
ہر روز کی طرح دن
آج بھی
سورج کی گواہی لے کر
آخر اندھیری گلیوں میں گھس آیا
اور ہم
اپنے اپنے گھر کے نیایے دھیش
سورج کی گواہی کے عادی ہو چکے ہیں
سچ مان لیتے ہیں اور یوں
کہیں نہ کہیں اپنے ہی بکھراؤ میں
ساجھی ہو چکے ہیں
ہمیں اس سورج کی گواہی نہیں چاہیے
جو کسی پیشے ور گواہ کی طرح
دن کی پرتیت کرانے
پیلے چہروں پر
کچے گھروں کے آنگن میں
کرونا کا بیج بن اگنا چاہتا ہے
نہیں چاہئے ہمیں
اس سورج کی گواہی جو ہر بار
نیا سوانگ بھر
صبح سے شام تک ٹوکرے ڈھونے والے
جیونت چہروں کا مکھوٹا لگا کر
اوڑھی ہوئی ناگرکتا میں نہا کر
وہ سورج اب ٹھنڈا پڑ چکا ہے
اور اب
ہمارے ہی انتر سے سلگنا چاہتا ہے
ہم سورج کو
اپنے لال توے کے اوپر
پکتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں
سورج نہیں ہے کسی کی بپوتی
ہر بستی کی امید ہے وہ
گویا ہر ہاتھ کی روٹی