پہاڑ

جاتی ہوئی دھوپ میں
بیٹھے بتیاتے
یہ پہاڑی لوگ
مجھے لگتا ہے اپنے دکھوں کو
سیک سیک کر
سکھوں میں بدل رہے ہیں
گنگناتے ہوئے
جو دیکھتے دیکھتے چھیج جائیں گے
سرکتی ہوئی دھوپ کی طرح


کیا سکھ کو
دھوپ کے ٹکڑوں کی طرح
تھوڑی دیر تک
اور ٹھہرایا نہیں جا سکتا
سوچتے سوچتے میں چلتا ہوں
چل دیتا ہوں میں
ان چھپر ٹین دار ڈھلواں چھتوں کی طرف
جہاں سے دھواں اٹھ رہا ہے
تھکا ماندہ دھواں
دکھ بھی کتنے روپ دھرتا ہے
سکھوں کی
ننھی ننھی پڑیاؤں کے بیچ