ماں

دو لہریں ساتھ رہتی ہوئی
جب کبھی ملنے کو ہوتی ہیں
تو لگتا ہے ماں کے ہونٹھ کچھ کہنا چاہتے ہیں


ندی کبھی سوتی نہیں ہے
مڑتی ٹھٹھکتی
بھٹکتی اور ٹکراتی
ا ورام
بہتی رہتی ہے ندی
صدیوں تک
بہت ہوا تو اونگھتی ہیں
اس کی لہریں
اداسی میں کبھی کبھی
پانی کی پرتوں کے بیچ گونجتا ہے سناٹا
کچھ ٹوٹتا ہے کہیں منجھدار میں


اپنی سمرتی کے آنچل میں دکھوں کو چھپائے
بہت نیچے اتل میں سسکتی
پھر بھی بہتی رہی چٹانوں سے ٹکراتی
ندی کی طرح ماں بھی
جاگتی رہتی ہے ہماری آنکھوں میں
سپنوں کے لیے سپنا ہو جانے تک