ہو نوشتہ یہ بھی جیسے کاتب تقدیر کا
ہو نوشتہ یہ بھی جیسے کاتب تقدیر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
حلقۂ اہل زباں میں خوش ہوں میں یہ دیکھ کر
منفرد لہجہ ہے میرے دوست کی تقریر کا
تا ابد سمجھے نہ جس کو ابن آدم کا دماغ
جز کوئی ایسا نہ ہو یا رب تری تحریر کا
ہے تصور پاس جس کے سیر عالم کے لئے
کیا اثر ہو اس کے پاؤں پر کسی زنجیر کا
دوسروں کی پگڑیاں بھی چاہتا ہے چھین لوں
آدمی بھوکا ہے کتنا اپنی ہی توقیر کا
نام تک آیا نہیں جن میں کہیں فرہاد کا
تذکرہ ہے ان کتابوں میں بھی جوئے شیر کا
میں نے تن کی روشنی کو کم ہی پوجا ہے کنولؔ
میں رہا شیدا ہمیشہ روح کی تنویر کا