دریچہ ہو کہ در الجھا ہوا ہے
دریچہ ہو کہ در الجھا ہوا ہے
مرا تو گھر کا گھر الجھا ہوا ہے
بدن کے پیچ و خم تو جھیل لیتے
قیامت ہے کہ سر الجھا ہوا
بڑی سیدھی ہے چاہت منزلوں کی
مگر ذوق سفر الجھا ہوا ہے
نہ جانے کیا ہوا ہے آدمی کو
جدھر دیکھو ادھر الجھا ہوا ہے
کنولؔ کٹتا ہے میرا وقت جس میں
وہ دفتر بیشتر الجھا ہوا ہے