وہ ستم گر جدھر گیا ہوگا

وہ ستم گر جدھر گیا ہوگا
اک زمانہ ادھر گیا ہوگا


آنے والا زمیں پہ آتا تھا
جانے والا کدھر گیا ہوگا


گاہے گاہے تو خود سمندر بھی
اپنی لہروں سے ڈر گیا ہوگا


چارہ گر بے سبب نہیں روتا
کوئی بیمار مر گیا ہوگا


جس پہ غم کی نظر پڑی ہوگی
اس کا چہرہ نکھر گیا ہوگا


دل جو بگڑا ہوا تھا مدت سے
چوٹ کھا کر سنور گیا ہوگا


میرا دشمن کنولؔ پس پردہ
جو بھی کرنا تھا کر گیا ہوگا