انا کی قید سے آزاد ہو کر کیوں نہیں آتا
انا کی قید سے آزاد ہو کر کیوں نہیں آتا
جو باہر ہے وہ میرے دل کے اندر کیوں نہیں آتا
اڑان اس کی اگر میرے ہی جیسی ہے فضاؤں میں
تو قد اس کا مرے قد کے برابر کیوں نہیں آتا
میں پہلے شیشۂ دل کو کسی کھڑکی میں رکھ آؤں
پھر اس کے بعد سوچوں گا کہ پتھر کیوں نہیں آتا
چھپا لیتی ہے دنیا کس طرح یہ زہر برسوں تک
دھواں جو دل کے اندر ہے وہ باہر کیوں نہیں آتا
کوئی تقسیم کا ماہر اگر مل جائے تو پوچھوں
کہ ہر قطرے کے حصے میں سمندر کیوں نہیں آتا
ہزاروں آشنا ہوتے ہیں لیکن آڑے وقتوں میں
ضرورت جس کی ہوتی ہے میسر کیوں نہیں آتا
کنولؔ فن کار کے بارے میں یہ بھی اک معمہ ہے
جو اب تک آ چکا ہے اس سے بہتر کیوں نہیں آتا