Fauzia Sheikh

فوزیہ شیخ

  • 1982

فوزیہ شیخ کی غزل

    میرے اندر بھی مرے یار سی خاموشی ہے

    میرے اندر بھی مرے یار سی خاموشی ہے یعنی اس پار بھی اس پار سی خاموشی ہے دستکیں دیتی ہوں ناکام پلٹ آتی ہوں ایک در ہے جہاں دیوار سی خاموشی ہے کس مصور کا تراشا ہوا شہکار ہے تو جو خد و خال میں کہسار سی خاموشی ہے سارے احساس مسل دے گی کچل جائے گی اس کے لب پر جو گراں بار سی خاموشی ...

    مزید پڑھیے

    دل پر ترے ہجراں میں قیامت کی گھڑی ہے

    دل پر ترے ہجراں میں قیامت کی گھڑی ہے احساس کے تابوت میں اک لاش پڑی ہے کیچڑ کا تکلف نہ کرو شہر کے لوگو آنچل پہ تو رسوائی کی اک چھینٹ بڑی ہے سینے سے لگو ہنس کے رہے یاد یہ لمحہ کھو کر ہمیں رونے کو تو اک عمر پڑی ہے ممکن ہے تو اک بار اسے توڑ دے آ کر برسوں ہوئے دہلیز پہ امید کھڑی ہے کس ...

    مزید پڑھیے

    پھر اک خوشی سے کیا اس نے ہمکنار مجھے

    پھر اک خوشی سے کیا اس نے ہمکنار مجھے وہ کھینچ لے گیا دریائے غم کے پار مجھے چراغ راہ محبت ہوں طاق میں رکھنا غبار قریۂ نفرت میں مت اتار مجھے میں اس کی یاد میں راتوں کو سو نہیں سکتی وہ دور رہ کے بھی رکھتا ہے اشک بار مجھے کٹی پتنگ سی اٹکی ہوں شاخ نازک پر ہوا کا ہاتھ بھی کرتا ہے تار ...

    مزید پڑھیے

    ہونٹوں پر صحرا رہتا ہے آنکھ میں کھارا پانی

    ہونٹوں پر صحرا رہتا ہے آنکھ میں کھارا پانی ایک کنارا آگ ہے میرا ایک کنارہ پانی سوکھے پیڑ اور پیاسی آنکھیں آسمان کو دیکھیں مٹی میں جا کر چھپ بیٹھا دھوپ کا مارا پانی چاک کی اس گردش نے ماہ و سال لپیٹ لیے کوزہ گر کی ساری پونجی مٹی گارا پانی آتش گیر مسافت ہے اور اک رستا مشکیزہ کب تک ...

    مزید پڑھیے

    نفرت کی آندھیوں کو محبت میں ڈھال کر

    نفرت کی آندھیوں کو محبت میں ڈھال کر تنہا کھڑی ہوں دشت میں رشتے سنبھال کر مجھ کو تو تیرے درد بھی تجھ سے عزیز ہیں بیٹھی ہوں دیکھ پیار سے جھولی میں ڈال کر تعبیر ڈھونڈتے ہوئے رستہ بھٹک گئیں خوابوں سمیت پھینک دیں آنکھیں نکال کر شہرت کما رہے ہو تم اخبار کی طرح اپنے پرائے لوگوں کی ...

    مزید پڑھیے

    صرف کاغذ کے پھول ہوتے ہیں

    صرف کاغذ کے پھول ہوتے ہیں لوگ آنکھوں کی دھول ہوتے ہیں یہ کوئی موڑ ہے جدائی کا واپسی کے اصول ہوتے ہیں ایک پتھر سے بارہا ٹھوکر یہ بھروسے بھی بھول ہوتے ہیں جب تلک تم نظر نہیں آتے سارے موسم فضول ہوتے ہیں دل صحیفہ ہے اک محبت کا اور چہرے رسول ہوتے ہیں سارے مخلص ہی آب دیدہ ہیں آپ ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو صدا نہ دیں نہ ستائیں محبتیں

    مجھ کو صدا نہ دیں نہ ستائیں محبتیں میری بلا سے بھاڑ میں جائیں محبتیں پہنیں گے ہم کبھی نہ یہ مانگی ہوئی قبا جائیں یہاں سے اپنی اٹھائیں محبتیں بیٹھے رہیں غرور میں اپنی انا کے ساتھ رکھیں سنبھال کر یہ وفائیں محبتیں کہنا کہ اب کسی کی ضرورت نہیں رہی تھک ہار کر جو لوٹ کے آئیں ...

    مزید پڑھیے

    مرہم بھی مرے زخم کا آزار سے نکلا

    مرہم بھی مرے زخم کا آزار سے نکلا اقرار کا پہلو ترے انکار سے نکلا تھا تیری رعونت کے پس پردہ کوئی اور سر اور کسی کا تری دستار سے نکلا کس شخص کی رہ دیکھنے بیتاب سا ہو کر سایا کبھی در سے کبھی دیوار سے نکلا یادوں کے کسی باب میں رکھا ہوا کوئی خواب سوکھے ہوئے اک پھول کی مہکار سے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی فہرست لفظوں کی یا گوگل کو کھنگالے گا

    کوئی فہرست لفظوں کی یا گوگل کو کھنگالے گا وہ میری چپ سے اب کوئی نیا مطلب نکالے گا مقابل کر دیا اس کے اگر آئینہ میں نے تو زباں سے زہر اگلے گا کوئی پتھر اٹھا لے گا مجھے معلوم ہے اس تک تو خالی خط ہی جائے گا مرا قاصد ہی دیمک بن کے لفظوں کو اڑا لے گا ذرا دامن کو پھیلایا کئی لوگوں نے ...

    مزید پڑھیے

    کب گوارہ تھی زمانے کی کوئی بات مجھے

    کب گوارہ تھی زمانے کی کوئی بات مجھے وہ تو لے آئی یہاں گردش حالات مجھے روک سکتی ہوں اسے روز قیامت تک بھی سنگ تیرے جو ملے پیار کی اک رات مجھے آخری گام تلک جیت ہی سمجھی میں نے بڑی تدبیر سے لائی ہے مری مات مجھے لوگ جس کار اذیت میں مرے جاتے ہیں زندہ رکھتے ہیں وہی ہجر کے لمحات ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2