میرے اندر بھی مرے یار سی خاموشی ہے

میرے اندر بھی مرے یار سی خاموشی ہے
یعنی اس پار بھی اس پار سی خاموشی ہے


دستکیں دیتی ہوں ناکام پلٹ آتی ہوں
ایک در ہے جہاں دیوار سی خاموشی ہے


کس مصور کا تراشا ہوا شہکار ہے تو
جو خد و خال میں کہسار سی خاموشی ہے


سارے احساس مسل دے گی کچل جائے گی
اس کے لب پر جو گراں بار سی خاموشی ہے


بات سن کر بھی مری کوئی سمجھتا ہی نہیں
شور کی سطح پہ تہہ دار سی خاموشی ہے


کیوں نہ اس کو بھی کسی شکل میں ڈھالا جائے
یہ جو اطراف میں بے کار سی خاموشی ہے


باغ میں جھولا نہ صحرا میں بگولہ کوئی
سمت در سمت پر اسرار سی خاموشی ہے


چپ کا مطلب کبھی اثبات لیا جاتا تھا
آج اثبات میں انکار سی خاموشی ہے