نفرت کی آندھیوں کو محبت میں ڈھال کر

نفرت کی آندھیوں کو محبت میں ڈھال کر
تنہا کھڑی ہوں دشت میں رشتے سنبھال کر


مجھ کو تو تیرے درد بھی تجھ سے عزیز ہیں
بیٹھی ہوں دیکھ پیار سے جھولی میں ڈال کر


تعبیر ڈھونڈتے ہوئے رستہ بھٹک گئیں
خوابوں سمیت پھینک دیں آنکھیں نکال کر


شہرت کما رہے ہو تم اخبار کی طرح
اپنے پرائے لوگوں کی پگڑی اچھال کر


اک خوش گمان عکس کی بیعت سے پیشتر
خوش بخت آئنے سے تو رشتہ بحال کر


چھایا ہوا ہے باغ میں خوف و ہراس کیوں
سہمے ہوئے گلاب ہیں خوشبو سنبھال کر


یارب کہاں سے لاتے ہیں یہ لوگ حوصلہ
کانٹوں میں پھینک دیتے ہیں پھولوں کو پال کر