پھر اک خوشی سے کیا اس نے ہمکنار مجھے

پھر اک خوشی سے کیا اس نے ہمکنار مجھے
وہ کھینچ لے گیا دریائے غم کے پار مجھے


چراغ راہ محبت ہوں طاق میں رکھنا
غبار قریۂ نفرت میں مت اتار مجھے


میں اس کی یاد میں راتوں کو سو نہیں سکتی
وہ دور رہ کے بھی رکھتا ہے اشک بار مجھے


کٹی پتنگ سی اٹکی ہوں شاخ نازک پر
ہوا کا ہاتھ بھی کرتا ہے تار تار مجھے


مٹا دے مجھ کو یا رکھ لے سمیٹ کر دل میں
تو ہجر جیسی اذیت سے مت گزار مجھے


تو جانتا ہے کہ میں بے گھری سے ڈرتی ہوں
نکال دل سے نہ ایسے تو بار بار مجھے


میں انتظار کے برزخ میں جلتی رہتی ہوں
ہزار وسوسے رکھتے ہیں بے قرار مجھے


میں چاہتی ہوں اسے بھولنا مگر فوزیؔ
قسم خدا کی نہیں خود پہ اختیار مجھے