سب جیت کر بھی مات سے آگے نہیں گیا
سب جیت کر بھی مات سے آگے نہیں گیا وہ شخص میری ذات سے آگے نہیں گیا نا ممکنات سے ہی تھا آغاز زندگی بزدل تو ممکنات سے آگے نہیں گیا ٹھہرا ہے وقت آج بھی بچھڑے تھے ہم جہاں اک پل بھی غم کی رات سے آگے نہیں گیا عمروں کا انتظار وہ جھولی میں ڈال کر دو چار پل کے ساتھ سے آگے نہیں گیا غم ہجر ...